ذکرِ میلادِ مصطفیٰ (ﷺ)
حضرت سیِّدُنا کعبُ الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
''جب اللہ ﷻ نے موجودات کو پیدا فرمانے کا ارادہ کیا اور زمین کو بچھایا اور آسمان کو بلند فرمایا تو اپنے فیض ذات سے مُٹھی بھر لے کر اس سے ارشاد فرمایا: ''اے نور! محمدبن جا۔'' اُس نور نے ایک نوری ستون کی صورت اختیار کرلی اور اس قدر روشن ہوا کہ عظمت کے پردے تک جاپہنچا اور ربّ ِ کائنات ﷻ کو سجدہ کیا اور کہا: ''اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ﷻ ! یعنی سب خوبیاں اللہ ﷻ کے لئے ہیں ۔'' تو اللہ ﷻ نے ارشاد فرمایا: ''میں نے تجھے اسی لئے پیدا فرمایا اور تیرا نام محمد ﷺ رکھا ہے، تجھی سے اپنی مخلوق کی ابتدا کروں گا اور تجھی پر اپنی رسالت کا سلسلہ ختم کروں گا۔''
''میں نے تجھے اسی لئے پیدا فرمایا اور تیرا نام محمد ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)رکھا ہے، تجھی سے اپنی مخلوق کی ابتدا کروں گا اور تجھی پر اپنی رسالت کا سلسلہ ختم کروں گا۔''
پھر اللہ ﷻ نے اس نور کے چار حصے کرکے ایک حصے سے لوحِ محفوظ اور دوسرے سے قلم کو پیدا فرمایا پھر قلم سے ارشاد فرمایا: ''لکھ !'' تو قلم پر ایک ہزار سال تک ہیبتِ الٰہی ﷻ سے لرزہ طاری رہا۔ اس کے بعد قلم نے عرض کی :''اے میرے رب ﷻ! کیا لکھوں ؟ '' ارشاد فرمایا: ''لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھ۔'' پس قلم نے لکھا اور مخلوق کے متعلق علمِ الٰہی ﷻ پر رسائی پالی۔ پھراس نے یہ باتیں لکھیں:
1. حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی پشت مبارک میں موجود اولاد کی تعداد
2. جو اطاعتِ الٰہی ﷻ بجا لائے گا اللہ ﷻ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جواس کی نافرمانی کریگا اُسے دوزخ میں ڈال دے گا۔ اسی طرح
3. حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام، حضرت سیِّدُناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام اورحضرت سیِّدُناعیسیٰ روح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی امتوں کے متعلق بھی لکھا یہاں تک کہ جب حضورنبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم ﷺ کی امت کے متعلق لکھا کہ جس نے اللہ ﷻ کی اطاعت کی وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے اللہ ﷻ کی نافرمانی کی، قلم یہ جملہ ''وہ اُسے جہنم میں ڈال دے گا'' ابھی لکھنا ہی چاہتا تھا کہ اللہ ﷻ کی طرف سے نِدا آئی: ''اے قلم! ذرا ادب سے۔'' تو وہ ہیبت وجلالِ الٰہی ﷻ سے شق ہو گیا۔ پھر دستِ قدرت سے تراشا گیا۔ تب سے قلم میں یہ بات جاری ہو گئی کہ تراشے بغیر نہیں لکھتا۔ پھر اللہ ﷻ نے قلم سے ارشاد فرمایا: اس امت کے متعلق لکھ، '' یہ اُمَّت گنہگار ہے اور رب ﷻ غفَّار ( یعنی بہت بخشنے والا) ہے۔''
3. پھر اللہ ﷻ نے تیسرے حصے سے عرش کو پیدا کیا۔
4. پھر چوتھے حصے کے مزید چار حصے کرکے پہلے حصے سے عقل، دوسرے سے معرفت، تیسرے سے سورج، چاند اور آنکھوں کا نور اور دِن کی روشنی پیدا فرمائی اور یہ سب حقیقۃً نبئ مختار ﷺ ہی کے انوار ہیں۔ پس آپ ﷺ تمام کائنات کی اصل ہیں۔
5. اس کے بعد اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نور کی اس چوتھی قسم کے چوتھے حصے کو بطورِ امانت عرش کے نیچے رکھ دیا۔ پھر جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور ان کی پشت مبارک میں رکھا۔ پھر فرشتوں سے آپ علیہ السلام کو سجدہ کروایا اور جنت میں داخل کر دیا۔ فرشتے صف در صف آپ علیہ السلام کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑے ہو کر نورِ محمدی ﷺ کی زیارت کیا کرتے۔ آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ ﷻ کی بارگاہ میں عرض کی:''یااللہ ﷻ ! یہ فرشتے میری پشت کے پیچھے صف باندھ کر کیوں کھڑے رہتے ہیں؟'' ارشاد فرمایا:'' اے آدم! یہ فرشتے میرے حبیب،خاتم الانبیآء، محمدِ مصطفی ﷺ کے نورکی زیارت کرتے ہیں، جسے میں تیری پُشت سے پیدا فرماؤں گا۔''حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے عرض کی: ''یا الٰہی ﷻ ! اس مبارک نورکو میری پیشانی میں رکھ دے تاکہ یہ فرشتے میرے سامنے رہیں، پشت کی طرف نہ جائیں۔''تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی ﷺ کو آپ علیہ السلام کی پیشانی میں رکھ دیا۔ فرشتے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور نورِ محمدی ﷺ پر دُرودو سلام کے نذرانے پیش کرتے رہتے۔ حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناو علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی: ''یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں بھی اس مبارک نور کی زیارت کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا اسے میری پیشانی سے نکال کر کسی ایسی جگہ رکھ دے جہاں میں اس کی زیارت کر سکوں۔'' تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدُناآدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی اَنگُشتِ شہادت میں منتقل فرما دیا۔ فرشتے تسبیح پڑھتے تو آپ علیہ الصلٰوۃ والسّلام کی اَنگُشتِ مبارک میں وہ نور بھی تسبیح خوانی کرتا۔ اسی وجہ سے اس اُنگلی کو ''اَلْمُسَبِّحَۃُ''(یعنی تسبیح والی اُنگلی) کہتے ہیں۔
''یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ ! میں بھی اس مبارک نور کی زیارت کرنا چاہتا ہوں،
پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی : ''یااللہ ﷻ !کیا اس مبارک نور میں سے کچھ میری پشت میں بھی باقی ہے ؟''جواب ملا: ''ہاں! میرے محبوب کے صحابہ کا نور ابھی باقی ہے۔'' عرض کی :''یااللہ ﷻ! اس بقیہ نورکو میری بقیہ انگلیوں میں رکھ دے۔'' تو اللہ ﷻ نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کانور درمیان والی انگلی میں، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور بِنْصَرْ(یعنی درمیانی کے ساتھ والی انگلی) میں ، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور خِنْصَرْ (یعنی سب سے چھوٹی اُنگلی)میں اور امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نور انگوٹھے میں رکھ دیا۔ جب تک حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام جنت میں رہے تو یہ نور ان کی اُنگلیوں میں چمکتا رہا۔
جب آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام درخت کی آزمائش سے دوچار ہوئے تو اللہ ﷻ نے اس نور کو دوبارہ واپس پشت میں رکھ دیا۔ پھر اللہ ﷻ نے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو اس ودیعت کئے گئے نور کے راز کی قدر و منزلت کی پہچان کرا ئی اور فرمایا: ''پاک صاف ہو کر تسبیح و تقدیس کرو پھر دونوں طاہرہو جاؤ اور اپنی اہلیہ حواء کا حقِّ زوجیت ادا کرو کہ میں تم دونوں سے اپنے اس فیض آثار نور کا ظہور فرمانے والا ہوں۔'' پس آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حکمِ الٰہی ﷻ کے مطابق عمل کیا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نورِ محمدی ﷺ حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے حضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں منتقل فرما دیا۔ پھر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام اس نور کوحضرت سیِّدَتُنا حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی پیشانی میں سورج کی مانند دائرے کی صورت میں دیکھا کرتے۔